انسان مدنی الطبع ہے جس کی وجہ سے دوسرے انسانوں کے ساتھ باہم مل جل کر رہنا اور ایک دوسرے کے کام آنا ناگزیر ہے۔ آپس کے رابطے اور اظہار ما فی الضمیر کے لیے زبان کی اہمیت غیر معمولی ہے۔
عربی زبان نہ صرف دنیاوی طور پر اہمیت کی حامل ہے بلکہ دینی لحاظ سے ہر مسلمان کے لیے اس کی اہمیت مسلم ہے۔ اس کو سیکھنے کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جا سکتا ہے جو سیکھنے کے عمل کو آسان بنا دے؟
کسی بھی زبان کو سیکھنے کا آسان اور مفید طریقہ وہی ہو گا جو فطرت سے قریب تر ہو۔ ہمارے سامنے اس کی جو مثال ہے وہ ایک بچے کی ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے، بڑھنا شروع ہوتا ہے، اپنے ارد گرد بولے جانے والی زبان کو سنتا ہے، پھرجو الفاظ اس کی سماعت سے ہو کر اس کے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں ان کی ادائیگی کی کوشش کرتا ہے، شروع شروع میں درست ادائیگی مشکل ہوتی ہے لیکن مرور زمن کے ساتھ وہ بالکل درست انداز سے بولنا شروع کر دیتا ہے۔
جب بولنا شروع کر دیتا ہے تو اس کی زبان کے حوالے صلاحیت ایک نہج تک پہنچ چکی ہوتی ہے، اس کے بعد جب وہ درسگاہ میں جاتا ہے تو پھر اسی انداز سے اسے قومی اور علمی زبان سکھانے کی مشق کروائی جاتی ہے، استاد حروف تہجی کو بار بار دہراتا ہے، شاگرد ان کو یاد کرتا ہے، پھر دہراتا ہے اس کے بعد وہ ان کی شکلیں پہچان کر ان کو پڑھنا شروع کرتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب وہ بغیر دیکھے درست انداز میں لکھ بھی سکتا ہے۔
اس پورے عمل کا اگر تجزیہ کرنے کی کوشش کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ زبان سیکھنے کے عمل میں چار مہارتیں بہت بنیادی ہیں۔ سننا، بولنا، پڑھنا اور پھر لکھنا۔ ان چار مہارتوں کے ساتھ ساتھ ایک پانچویں مہارت جس کی ضرورت پیش آتی ہے وہ ہے قواعد یا گرائمر
عربی زبان نہ صرف دنیاوی طور پر اہمیت کی حامل ہے بلکہ دینی لحاظ سے ہر مسلمان کے لیے اس کی اہمیت مسلم ہے۔ اس کو سیکھنے کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جا سکتا ہے جو سیکھنے کے عمل کو آسان بنا دے؟
کسی بھی زبان کو سیکھنے کا آسان اور مفید طریقہ وہی ہو گا جو فطرت سے قریب تر ہو۔ ہمارے سامنے اس کی جو مثال ہے وہ ایک بچے کی ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے، بڑھنا شروع ہوتا ہے، اپنے ارد گرد بولے جانے والی زبان کو سنتا ہے، پھرجو الفاظ اس کی سماعت سے ہو کر اس کے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں ان کی ادائیگی کی کوشش کرتا ہے، شروع شروع میں درست ادائیگی مشکل ہوتی ہے لیکن مرور زمن کے ساتھ وہ بالکل درست انداز سے بولنا شروع کر دیتا ہے۔
جب بولنا شروع کر دیتا ہے تو اس کی زبان کے حوالے صلاحیت ایک نہج تک پہنچ چکی ہوتی ہے، اس کے بعد جب وہ درسگاہ میں جاتا ہے تو پھر اسی انداز سے اسے قومی اور علمی زبان سکھانے کی مشق کروائی جاتی ہے، استاد حروف تہجی کو بار بار دہراتا ہے، شاگرد ان کو یاد کرتا ہے، پھر دہراتا ہے اس کے بعد وہ ان کی شکلیں پہچان کر ان کو پڑھنا شروع کرتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب وہ بغیر دیکھے درست انداز میں لکھ بھی سکتا ہے۔
اس پورے عمل کا اگر تجزیہ کرنے کی کوشش کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ زبان سیکھنے کے عمل میں چار مہارتیں بہت بنیادی ہیں۔ سننا، بولنا، پڑھنا اور پھر لکھنا۔ ان چار مہارتوں کے ساتھ ساتھ ایک پانچویں مہارت جس کی ضرورت پیش آتی ہے وہ ہے قواعد یا گرائمر
عربی زبان کیسے سیکھیں
اگر کوئی غیر عربی اس بات کا متمنی ہو کہ عربی زبان سیکھے تو اس کے لیے بھی یہی فطری طریقہ سب سے مفید ہوگا۔ اور ایک مسلمان کے لیے دیگر زبانوں کے مقابلے میں عربی زبان سیکھنا قدرے آسان ہے، کیوں کہ اسلام کا نظام عبادت اس طرز کا ہے کہ تھوڑی سی توجہ دے کر یہ چاروں مہارتیں حاصل کی جا سکتی
ہیں۔پانچ وقت کی آذان، باجماعت نماز میں تلاوت کی سماعت سننے کی مہارت کا عملی مشق کرواتی ہے، نماز کی ادائیگی میں عربی بولنے کی ایک گونہ مشق ہو جاتی ہے، روزانہ کی تلاوت کا معمول پڑھنے کی صلاحیت میں روز افزوں اضافہ کرتا ہے۔ جب یہ تین بنیادی مہارتیں پیدا ہو جائیں تو پھر باقی صرف دو مراحل ہیں جن پر تھوڑی توجہ دے کر آسانی سے عربی زبان سیکھی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ آج کل نہ صرف انٹر نیٹ پر بلکہ سی ڈیز کی صورت میں ایسے بہترین کورسز دستیاب ہیں جن کی مدد سے بہت کم عرصے میں عربی زبان سیکھی جاسکتی ہے۔ کچھ عربی کی ایسی کتب موجود ہیں جن کی مشق کے لیے سی ڈیز بھی دستیاب ہیں اور یہ کتب بطور خاص ان افراد کے لیے تیار کی گئی ہیں جو عربی زبان سے ناواقف ہیں۔ اس حوالے سے دو معروف کتابیں “العربیۃ للناشئین” اور “العربیۃ بین یدیک” خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔